زندگی گلزار تھی – Delhi Poetry Slam

زندگی گلزار تھی

By Hajra Hussain 

کسے پتہ تھا کہ زندگی اتنی تنگ مجاز ہو جائےگی
دل دماغ سے روٹھا ہوگا اور روح جسم سے مُنْہ موڈ ے بیٹھی ھوگی۔
تم بھی تو چلے گئے، واپسی کی تاریخ تو خت میں لکھی نہیں تھی۔
امید ٹوٹ بھی جاتی، لیکن اِک آرزو زندہ تھی۔
جو اس چراغ کو روز روشن کرتی رہی، اور میری روح کو کترا کترا روندتی چلی گئی۔
لیکن قسمت بھی کیا چیز ہے!
دیکھو تو آج تم نظروں کے سامنے ہو، پھر بھی انجان پڑتے ہو۔
جانے کی بات تو یوں کر رہے ہو، جیسے رات مقمل ہو گئی ہو۔
ستاروں کی محفل سے چاند نے اجازت لیلی ہو۔
کیا کہتے ہو؟ تھوڑی دیر اور نہیں ٹھہرو گے؟
اب رک ہی گئے ہو تو سنو، تمہارے جانے کے بعد
روز مررہ کی زندگی نے اِک اندهیری چادر اوڑھ لی۔
وقت گزرتا چلا گیا اور سب بدل گیا۔
وہ جو گلی کے آخر میں نیم کا پیڈ تھا نہ، ارے وہی
جسکی چھاؤں میں نہ جانے کتنی دوپھےریں گزری، وہ تو اب نہیں رہا، اور نہ ہی وہ فیروز چچا کی مٹھائیوں والی دکان رہی۔
تم گئے تو جیسے سب ساتھ لے گئے۔
رہ گئے تو صرف کچھ تحفے اور کھلونے۔
سب دھیرے دھیرے جاتے گئے اور مین اس میدان میں تمہارے انتظار میں بیٹھا رہا۔
اِک آس تھی کی تم آؤگے،
اُن سرد راتوں میں اپنی باتوں کی چادر لیکر، جسکی پہرےداری میں کئی راتوں کی نیند پوری ہوگی۔
لگتا تھا تم آؤگے تڑپتی دھوپ مین ٹھنڈے شربت کا پیالہ لیکر،
اس سے اندر کا جو خالی پن ہے وہ بھی بھر جائیگا۔
ہاں معلوم ہے تم نے بھی کوئی آسان دن نہیں دیکھے ہونگے،
روز کوئی نئ جنگ لڑی ہوگی، کبھی جیتتے ہوگے، تو کبھی ہار سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہوگی۔
اب گھر سے دور سکون ڈھونڈنے گئے تھے، کیا ہی کہوں؟
بچپنے کی بھی حد کردی تمنےـ
آج لوٹے ہو تو یہ ساری شقاعتیں چھوٹی لگ رہیں۔
تمہارے چہرے کا نور تو جیسے کہیں خو ہی گیا ہے۔
وقت نے بھی اپنی لکیریں کھینچ دی ہیں۔
آنکھوں سے چمک، اور زبان سے مٹھاس، اس انجان شہر نے لیلی ہے۔
لیکن اِک دل کی بات ہے جو تمہارے جاتے وقت شرم کے لباس میں لفظوں کا دامن نہیں پکڑ پائی تھی۔
اب تو کچھ بھی ویسا نہیں رہا، مگر آج سامنے ہو تو سوچ رہا ہوں کہہ ہی دوں۔
تم کل بھی عزیز تھے اور آج بھی اتنے ہی عزیز ہو،
جانا ہے تو جاؤ، بس دل کی یہ بات لیتے جاؤ،
کی چاہیں فاصلے کتنے بھی ہوں
میں کل بھی تمہارا تھا، اور آج بھی تمہارا ہوں۔


Leave a comment