By Afiya Agha
“ایک ملاقات مجھ سے بھی”
کل پوچھا میرے دل سے میں نے
آج مانگ جو تو چاہتا ہے،
سب کچھ اوروں کے لیے ہی،
یا کچھ میرے لیے بھی چاہتا ہے؟
جواب میں دل نے کہا،
گلے شکوے تو نہ ہی کر تو ،
اب مجھ سے شکایت فضول ہے،
میری کب سنی ہیں تونے ؟
یہ تیرے ہی بنائے اصول ہیں!”
حیرت ہوئی اس کے جواب پر مجھ کو،
یہ ساری رات مجھے جگا گیا۔
میں تو زندگی بس گزار رہا تھا اب تک،
یہ مجھے زندگی جینا سکھا گیا!
کچھ یوں کہ،
خوفِ زمانہ روک نہ پائے آج قدم کوئی،
کیوں غیر ہی عزیز ہیں تجھ کو؟
آج خود پر بھی ہو جائے ایک نظم کوئی!
جو پڑھ لیا تو جانا،
ایک مکمل کتاب ہوں میں،
توجہ اوروں میں تلاش کرتا ہوں،
تبھی تو اس قدر بیتاب ہوں میں!
گل فروش آج گلاب پکڑاتے ہوئے بولا،
“صاحب! کوئی پیغام لکھوانا ہے؟”
خود کہہ دوں گا جو کہنا ہوگا،
آج مجھے مجھ سے ملنے جانا ہے!
سیاست کے اس دور میں،
ہر خلش، ہر رنج، ہر سازش میں روزانہ سہہ کر آیا ہوں،
جنہیں عادت تھی میری ہاں سننے کی،
ابھی ابھی اُنہیں ناں کہہ کر آیا ہوں!
تو کیوں نہ معاف کر کے خود کو،
خود سے درگزر کیا جائے؟
کچھ عیب اپنے بھی نظر انداز کر،
کیوں نہ بے خبر بنا جائے؟
کچھ اصول توڑیں، کچھ روایات توڑیں،
توڑ کوئی قانون دیا جائے،
ان چار لوگوں کے لکھنے کو،
چلو کوئی مضمون دیا جائے!
بے شک سہارا بن تو اوروں کا،
پر اول رسی تم خود پکڑے رہنا ،
کہ فرض کرو ڈھونڈ بھی لیں وہ کنارا تم سے پہلے،
یہ ہاتھ اوپر نہ کریں، تو کہنا!
تو جب گزرتا ہوں میں بازار سے ہو کے،
ایک حسرت ہے جس پر میری نظر ٹِکتی ہیں
ایک عرصے بعد لگا مطمئن ہوں میں،
جو وہ چیز آج کل میری الماری میں دکھتی ہے!
تو لو! نکل پڑا ہوں میں اس سفر پر،
جس کی آرزو ایک مدت سے دبتی آئی ہے،
ہو بہو ہے سارا تصور کے مطابق،
فرق محض اتنا سا ہے،
اس دفعہ ہمسفر میری پرچھائیں ہے!